Saturday, November 22, 2008

سےالکوٹ : پاکستان کا آئی ایم ایف سے 7.6بلین ڈالر قرضہ لینے کا معاہدہ طے پاگیاہے۔ مشیرخزانہ شوکت ترین کے مطابق آئی ایم ایف سے قرضہ کا پروگرام 23ماہ پر محیط ہوگا،قرض کی واپسی کی مدت پانچ سال ہوگی جوکہ 2011ء سے 2016ء تک ہوگی۔چار ارب ڈالر رواں سال جبکہ باقی رقم آئندہ برس اداکی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی کریڈٹ لمٹ کے تحت قرضہ لیا جارہا ہے ،جس پر شرح سود 3.51سے 4.51فیصدتک ہوگی جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی نئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والے قرضے کے حصول پر روزنامہ آج کل نے سےالکوٹ کے شہرےوں سے اےک سروے کےا جس مےں انہوں نے اس قرضے کو ےکسر مسترد کرتے ہوئے حکمرانو ں کو کہا کہ وہ اپنے پےروں پر کھڑاہونا سےکھ لےں تاکہ ہماری آنے والی نسلےں اس قرضہ مہم سے نجات حاصل کرسکے۔مسلم لےگ(ن) کے راہنما سابق امےداوار تھصےل ناظم حاجی سرفراز احمد ملک نے کہا کہ آئی ایم ایف نے زیادہ شرح سود پر قرضہ دے کر پاکستان کے عوام کو گروی رکھ لیا ہے جو عوام کے لئے تکلیف دہ ہوگا۔آئی ایم ایف کا قرضہ قومی مفاد میں نہیں ہے بلکہ یہ ذاتی مفاد کی تکمیل میں استعمال ہوگا، عوام پہلے ہی ننگے اور بھوکے ہیں۔آئی ایم ایف کے قرضہ سے جو رقم حاصل ہوگی اس میں عوام کا حصہ نہیں ہوگا، بلکہ حکمراں کھا جائیں گے اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ممتاز صنعتکار شاہد رفےق ٹونی نے کہا ک مجھے افسوس ہے ہمارے حکمران ایک طرف آئی ایم ایف سے مشکل شرائط پر قرض لے رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کا سرمایہ برطانیہ میں پراپرٹی خریدنے پر صرف ہورہا ہے کےایہ دورخی پالیسی نہیں ہے؟ پاکستان پےپلز پارٹی انسانی حقوق ونگ کے سٹی صدر عبدالعزےز خان نے کہا کہ قرضہ پاکستان کی مجبوری ہے۔گوکہ ہم پر مزید ٹیکس کا بوجھ بڑھے گا مگر ہم سابق دور حکومت کی ناقص پالےسوں کی وجہ پس رہے ہےں ورنہ ہمارے ملک مےں اتنے وسائل ہےں کہ ہم بغےر قرضے کے بھی اپنا بوجھ اٹھا سکتے ہےں۔مرزاامتےاز احمد نے کہا کہ گر یہ آئی ایم ایف کی رقم پاکستان آئی تو ہم مزید غلامی کے دور میں چلے جائیں گے۔اس قرضہ کی وجہ سے پاکستانی عوام کو کچھ ریلیف نہیں ملنا ہے مگر یہ کڑوی گولی نگلنی پڑے گی یہ سب امریکی پٹھو ہین یہ عوام کا نہیں اپنا مفاد دیکھتے ہیں یہ قرضہ ہمیں معاشی اور مالیاتی طور پہ برباد کردیگا، قوم کسی بھی طرح اس قرضہ کی متحمل نہیں ہوسکے گی۔اسلم نادار سلہری نے کہا مبارک ہو ہم نے اپنے آپ کو واقعی بھکاری ثابت کردیا، کس پر بھروسہ کریں کس سے انصاف مانگیں ۔کالج کی طالبہ صائقہ نے کہا کہ آئی ایم ایف قرضہ دیدے کر تھک گیا ہے اس قرضہ کا انجام بھی پہلے والے قرضون کی طرح ہوگا لیکن خرچ بھی ان کی مرضی کے مطابق ہوگا ۔آئی ایم ایف سے مزید بھیک لینا منظور ہوگیا ہے کیا ہمارے حکمران عوام کی بوٹیاں نوچنا چاہتے ہیں یہ قرضہ وبال جان ہوگا، اس سے مزید مہنگائی ہوگی،اور کیا کہیں، اللہ حافظ۔عمر خان نے کہا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف میں جانے کا فےصلہ فرینڈز کانفرنس میں امریکہ کے حکم پر کرلیا گیا تھا جس کا اطلاق اب ہوا ہے اس چنگل میں پھانسنے کے بعد امریکی احکامات پر عمل موجودہ حکومت کرے گی کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہمارے حکمران اپنی دولت یہاں لے آتے۔یہ خوشی کی نہیں بلکہ ایک بری خبر سے تعبیر کیا جانا چاہیے، لیکن عوام کی سنے بغیر معاملات طے کر لئے جاتے ہیں جبکہ عوام اپنے ملک کی مشکلات کو سمجھتے ہیں معاشی بحران سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا درست نہیں ہے۔ڈاکٹر منےر احمد بٹ نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف سے قرضہ کیوں لیں۔ ہمارے پاس سرمایہ داروں کی کمی نہیں ہے وہ چاہیں تو اس کی نوبت ہی نہ آئے لیکن معاملہ طے ہونے کے بعد کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس کے اثرات کیاہونگے۔یہ پاکستان کو قرضہ کی عوض گروی رکھنے والی بات ہے اور ہماری رہی سہی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔حافظ عمران شہزاد نے کہا کہ آئی ایم ایف کا قرضہ پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ جب یہ حکومت آئی تھی تو ہمارا زرمبادلہ نو ارب ڈالرز تھے،جو اب گھٹ کر ساڑھے چار ارب رہ گئے ہیں اور اب یہ کہا جا ریا ہے کہ صرف تیس دن کا زر مبادلہ رہ گیا ہے اگر آئی ایم ایف سے امداد ملتی بھی ہے تو وہ بھی چار اقساط میں ملے گی،لیکن یہ پیسہ کہاں جائے گا اور کہاں خرچ ہوگا معلوم نہیں ، کیونکہ چیک اور بیلنس کہاں اور کون کرے گا۔ جاگیر دار اور وڈیرہ سسٹم جب تک ہے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ملک نوےد احمد آف مراکےوال نے کہا کہ میں یہ سمجھتاہوںہم کب تک آئی ایم ایف کی غلامی میں رہیں گے معلوم نہیں ہے کیونکہ یہ غلامی کا طوق پہننے کے مترادف ہوگایہ غلطی سیاستدانوں کی نہیں ہے بلکہ ہمارے عوام کی ہے کیونکہ انہوں نے جیسے حکمراں منتخب کئے وہی اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔اللہ ہمارے عوام اور حکمرانوں کو بھی ہدایت دے۔ےہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پہلے بھی مختلف حکومتوں نے آئی ایم ایف سے قرضے لئے ۔ اور اب بھی پیپلز پارٹی ہی کے دور میں قرضہ لینے کی روایت قائم ہوچکی ہے قوم کو اس طرف راغب کیا جا رہا ہے لیکن اس کے پیچھے کس کا مفاد ہے دیکھنا ہوگا، اگر عوام سے تھوڑی بہت بھی ہمدردی ہے تو اپنا سرمایہ یہاں پاکستان لائیں۔چوہدری مظفر کبےشر نے کہا کہ ہمارے ھکمرانوں کی اس کی پرواہ نہیںکہ عوام کو کتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی،عوام کو بے وفوف بنایا جا رہا ہے اگر قرضہ مل بھی گیا تو یہ عوام کے استعمال میں نہیں آئے گا۔آج کل گلی گلی کوچہ کوچہ مےڈےا کی رسائی ہے ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کرےں کےونکہ ہمارے عوام اب سےاستدانوں سے زےادہ مےڈےا پر بھروسہ کئے بےٹھے ہےں۔(ڈاکٹر شمس جاوےد)