
9 نومبر کا دن آتے ہی اہل سےالکوٹ کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ علامہ اقبال کی جائے پیدائش ''اقبال منزل''میں آتے ہیں ۔پرانے کئے گئے وعدوں کو نئے اندازوں میں دہرایاجاتا ہے ۔اور پھر نئی قسمیں کھا کر کچھ نئے عہد کئے جاتے ہیں جنہیں آج تک وفا ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا ۔شہر اقبال پر فخر کرنے والے اور حکومتی اعلیٰ اےوانوں میں اقبال کے شعروں پر سرد ھننے والے اپنے ہی شہر میں اقبال کی یادوں سے جڑی اس ''اقبال منزل''سے غافل ہوچکے ہیں ۔حکومتی اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساتھ اقبال کے کچھ نام نہاد پروانے اپنی اپنی بساط کے مطابق دوعوں کی نئی تسبیح جھپتے نظر آتے ہیں اقبال کے نام سے موسوم یہ ''اقبال منزل'' جہاں اہل وطن کے لئے" نشان فخر" ہے وہیں پر آج کل اس کی حالت" مقام فکر" ہے ۔قومی ورثہ قرارپانے کے باوجود اعلیٰ حکام کی عدم توجیہی سے ''اقبال منزل''اپنا اصل حسن کھو چکی ہے ۔جگہ جگہ لگے سیمنٹ کے پنکچر اس کی حالت زار کی کہانی خود سناتے نظر آتے ہیں ۔اقبال پر فخر اپنی جگہ لیکن اس کی بچپن کی ساتھی اس ''اقبال منزل''کے ساتھ ہمارا رویہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ ''اقبال منزل''کا پچھواڑا جو درحقیقت اس مکان کا صدر دروازہ تھا اس کی حالت اس قدر خراب ہو چکی ہے کی عمارت کو کھڑا کرنے کےلئے جگہ جگہ ٹیکوں کا سہارا لینا پڑا ہے ۔عمارت مےں ہر سو نظر آنے والی دڑایں اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ عرصہ دراز سے اس کی مرمت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔اور اگر کہیں مرمت کر بھی دی گئی ہے تو اس بھونڈے انداز سے کہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔مرمت کے نام پر لاکھوں روپے ہڑپ کرنے والوںنے عمارت کواصل شکل مےں لانے کی بجائے روائتی انداز میں لیپا تھوپی کرکے اس کی خرمت اور وضع داری کو بھی گہری چوٹ پہنچائی ہے ۔تیسری منزل پر لگی منڈھےرمیں سے جالیاں نکال کر انہیں بھدے انداز میں اینٹوں سے بھر دیا گیا ہے ۔ ''اقبال منزل''سے ملحقہ رہائش پذیر لوگوں نے بلا کسی خوف خطر تجاوزات کر کے اس کی دیواریںاپنے گھر میں شامل کر رکھی ہیں ۔مکان کے ساتھ گندے پانی سے بھری نالیاں اس کی بنیادوں کو مسلسل کھوکھلا کر رہی ہے ۔جس سے مستقبل قریب میں کوئی بڑا خادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے ۔ ''اقبال منزل'' کی موجودہ سامنے کی چند کھڑکیوں اور جالیوں پر سالانہ ہزاروں روپے برباد کر کے اس کے اندرونی زخموں کو چھپا دیا جاتا ہے تجاوزات کی بھرمار سے یہاں تک پہنچنا کسی معرکے سے کم نہ ہے ۔تاریخی ''اقبال منزل''کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں لیکن تجاوزات سے بھرے اس بازار میں گزرنا محال ہوتا ہے ۔جہاں پارکنگ کے نام پر بورڈ لگانے کی بھی جگہ نہ ہے ۔ ''اقبال منزل''کی یہ حالت پیش کرکے ہم نا صرف عالمی سطح پر جگ ہسائی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ ہماری اقبال کے ساتھ وابستگی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔
''اقبال منزل'' کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ انےسویں صدی کے آغاز میں اقبال کے آباؤاجداد کشمیر سے ہجرت کرکے سےالکوٹ آئے اقبال کے والد مخترم شیخ نور محمد چار بھائی تھے ۔شیخ عبدالرحمان ،شیخ محمد رمضان اور شیخ محمد رفےق ۔پہلے پہل یہ خاندان محلہ کھٹیکاں میں رہائش پذیر ہوا ۔لیکن بعد میں فروری 1861ء میں شیخ محمد رفیق نے ایک مکان خریدا جو کہ بعد میں ''اقبال منزل'' کے نام سے جانا جانے لگا ۔شروع میں ''اقبال منزل''نامی اس گھر میں تین چھوٹے کمرے ایک برآمدہ اور ایک چھوٹا صحن تھا ۔موجودہ ''اقبال منزل'' کا پچھواڑا دراصل اس گھر کا فرنٹ تھا ۔جہاں سے آمدورفت ہوتی تھی ۔دسمبر 1892ء میں اقبال کے والد شیخ نور محمدنے اقبال منزل سے ملحقہ 2منزلہ مکان خریدا جس میں 2چھوٹے کمرے ایک د لان اور باورچی خانہ تھا ۔تین سال بعد 1895ء میں 2دکانیں جوکہ سڑک کی طرف تھیں خرید کر ''اقبال منزل''کو اور وسعت دی گئی ۔ ''اقبال منزل''کا مین راستہ جوکہ پچھواڑے میں تھا دکانیں خریدنے کا بعد اس کا صدر دروازہ سڑک کی طرف بنا دیا گیا ۔1912ء میں علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد نوکری سے ریٹائر منٹ کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ اقبال منزل میں رہنے کے لئے آگئے ۔اور انہوں نے 1915ء میں مزید ایک دکان خرید کر ''اقبال منزل''کے ساتھ ملا دی ۔ شیخ عطاء محمد جو کہ پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھے انہوں نے اس گھر کو نئے سرے سے تعمیر کیا ۔موجودہ حالت میں قائم اس ''اقبال منزل'' کا طرز تعمیر یورپی ہے ۔اس میں 10کمرے 1باورچی خانہ ،2باتھ رومز ،ایک سٹور،ایک برآمدہ ،ایک ٹےرس اور دو لیٹرینےں ہیں ۔عمارت کا پورا رقبہ 2ہزار 3سو50معکب فٹ پر محیط ہے جوکہ قریباََ پونے 9مرلے بنتا ہے ۔شیخ عطا محمد نے مکان کے سڑک والے حصے میں اس کی پہلی منزل پر وہ تاریخی بالکونی بنائی جس پر کھڑے ہو کر قائداعظم محمد علی جناح نے دورہ سےالکوٹ کے موقع پر اپنا خطاب کیا ۔بالکونی میں لوہے کی ڈھلائی کی گئی جالیاں لگائی گئی ہیں ۔دوسری منزل پر قائم کچھ کمروں کا دروازہ اس بالکونی پر نکلتا ہے ۔ تاریخی ''اقبال منزل'' میں 3ذیقعد 1294ھ بمطابق 9نومبر 1877ء کی صبح اذان فجر کے ساتھ اقبال نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ۔اور اپنے بچپن کی رازداراس ''اقبال منزل'' کی خالت زار پر اقبال کی روح کی تڑپ کو کم کرنے کےلئے حکومت وقت کو واضع اور فوری اقدامات کرنے ضرورت ہے ۔عمارت کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اس کی مضبوطی کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔ اردگرد قائم ہونے والی تجا رارت اور بڑی بڑی کثےر المنزل عمارات سے ''اقبال منزل'' کودرپےش جن خطرات کا خدشہ ہے۔اس کو سنجےدگی کے ساتھ دیکھنا حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہوناچاہے ۔
